حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شام میں غاصب اسرائیل کو گھسنے کا موقع فراہم کیے جانے پر سوشل میڈیا کے صارفین تین طرح کے تجزیے کر رہے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ شام میں اگر لوگ حکومت وقت سے نالاں تھے تو احتجاج ہونا چاہیے تھا، لیکن یہاں مسلحانہ کاروائی کی گئی اور مسلح دہشت گرد گروہ دارلحکومت کی جانب بڑھتے رہے اور جولان سے غاصب اسرائیل آسانی سے گھس گیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ غاصب صیہونیوں کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔
واضح رہے عالمی سطح پر دہشت گرد کے نام سے جانا پہچانا جولانی نے ظاہراً اموی مسجد میں اپنی پہلی تقریر میں کہا ہے کہ ہمارا اسرائیل سے تو رابطہ ممکن ہے، لیکن حزب اللہ اور ایران سے رابطہ ممکن ہی نہیں ہے، بلکہ وہ ہمارے دشمن ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ غیر سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق، شام پر دہشت گردوں کے قبضے کے دوسرے دن ہی دہشت گردوں کے درمیان حکومت کے قیام پر ناچاکی شروع ہو گئی ہے۔
یاد رہے شام میں اکثریت امویوں، عثمانیوں اور کردوں کی ہے، جبکہ مذہب تشیع اور دیگر مذاہب اقلیت میں ہیں۔
دنیا کے منصف، عاقل اور بالغ افراد اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ ایران اور حزب اللہ یا پھر عراق اور یمن بشار الاسد کی صرف اور صرف اسرائیل مخالف ہونے کی وجہ سے حمایت کررہے تھے، کیونکہ بعض نام نہاد اور امریکی اور صیہونی آلہ کار مسلمانوں کے علاوہ باقی تمام آزادی پسند انسان، اسرائیل کو یروشلم پر قابض سمجھتے ہیں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں شام کے سقوط کے بعد بعض تجزیہ نگاروں اور سوشل میڈیا کے صارفین کا کہنا ہے کہ اب مزاحمتی محاذ کمزور ہو سکتا ہے۔
واضح رہے مزاحمتی محاذ نہ پہلے کبھی کمزور تھا اور نہ ہی آئندہ کمزور ہو گا، کیونکہ وہ دہشت گرد نہیں ہیں، ان کے اہداف ومقاصد واضح ہیں، ان کا کام، دفاع کرنا ہے۔
بشار الاسد نے کیوں زوال پذیری کو قبول کیا؟ یہ تو واضح ہے، کیونکہ لاسٹ ٹائم انہوں نے بعض خائن عرب ممالک کا دورہ کیا اور ان پر اعتماد بھی کیا، جبکہ انہی عرب ممالک نے برسوں انہیں عرب لیگ کی رکنیت سے محروم رکھا اور اسرائیل مخالف ہونے کی سزا دیتے رہے۔
سقوطِ دمشق پر دنیا بھر میں مختلف رائے پائی جا رہی ہے:
بعض اسے امویوں کی فتح قرار دے رہے ہیں، یقیناً یہ یزیدی اور تکفیری سوچ کے حامل لوگ ہیں۔
سقوطِ دمشق کو بعض لوگ گریٹر اسرائیل کا حصّہ قرار دے رہے ہیں اور ایسا لگتا بھی ہے ورنہ بچوں کا قاتل نیتن یاہو خوشی کا اظہار نہیں کرتا اور نہ ہی اسرائیلی فوج شام میں گھس جاتی۔ خیر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
بعض لوگ سقوطِ دمشق کو عوام کی حکومت سے ناراضگی بتا رہے ہیں۔
ایک صارف نے مندرجہ بالا تصویر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپلوڈ کی ہے اور تحریر الشام پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے: کیا تحریر الشام کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ یہ لوگ شام کی عوام کے حقوق اور آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں ؟
کیا ان کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ شام کو خود مختار اور آزاد ملک بنائیں گے ؟
کیا ان کا دعویٰ نہیں تھا شام کی زمین پر کسی کی دخالت قبول نہیں کریں گے ؟
تو یہ گروہ شام کے مختلف علاقوں میں صیہونی حملے پر خاموش کیوں ہے ؟
بشار الاسد کی حکومت ختم ہوگئی، صیہونی اب تمہارے ملک پر حملہ کر رہے ہیں، تمہاری زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں، تمہاری حکومتی املاک سمیت تعلیمی اور تحقیقی مراکز پر حملے کر رہے ہیں، تم خاموش کیوں ہو ؟
کہاں گیا تمہارا دعویٰ کہ اب شام آزاد ہوگیا ؟
نوٹ: تصویر شام کے علاقے برزہ میں سائنسی تحقیقی مرکز کا ہے جو اسرائیلی حملے میں تباہ ہوا ہے۔
کل ملا کر پچھلے 48 گھنٹوں میں قابض دہشت گرد فوج نے 250 دفعہ بمباری کی ہے۔
سوشل میڈیا پر سرگرم اور ریڈیو تہران اُردو کے سابق ڈائریکٹر سید محمد رضوی نے شام کے نقشے کو اپنے اکاؤنٹ پر شائع کیا ہے اور لکھا ہے:
شام کے اندر اسرائیل کی پیشقدمی جاری ہے، صیہونی افواج دمشق سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔
العالم، المیادین، یونیوز، اسرائیل ٹی وی کے چینل 12 اور ریڈیو اسرائیل کے مطابق صیہونی فوج جبل الشیخ سے پیشقدمی کرتے ہوئے دمشق کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ترکیہ کے حمایت یافتہ شام کے بعض باغی گروہوں کے میڈیا نے جو اس خبر کو نشر کیا تھا، اس کو ڈیلیٹ کردیا ہے۔
جب کہ باغیوں کے باقی چینلز خبر کی تردید کر رہے ہیں، تاکہ ان پر یہ اعتراض نہ ہو کہ کیوں وہ اسرائیلی حملوں کو روکنے کے لئے اقدام نہیں کر رہے ہیں؟!
واضح رہے کہ اسرائیلی ٹینک جولان کے بفر زون سے گزر کر لبنان کی سرحد کے ساتھ ساتھ شام کے اندر بغیر کسی مزاحمت کے آگے بڑھ رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج نے جبل الشیخ، بعث، حضر سمیت 9 مقامات پر قبضہ کرلیا ہے اور دمشق سے 40 کلومیٹر تک پہنچ گئی ہے۔
اسرائیلی طیارے بھی شام کے ہوائی اڈوں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کر رہے ہیں۔
س م رضوی۔
محمد ابراہیم صابری نے طنزیہ پوسٹ کرتے ہوئے نام نہاد مسلمانوں کو فتح شام کی مبارکباد دی ہے:
باب العلم اکیڈمی نے جولانی اور اردوغان کو یہودی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے پوسٹ کی ہے:
پاکستان کے معروف عالم دین حجت الاسلام والمسلمین سید جواد نقوی نے شام کے معاملے پر ترکی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے:
ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی نے اردوغان کی اسرائیل نوازی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
پاکستان کے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نے عرب لیگ کے حوالے سے سقوطِ دمشق کو امریکی اور صیہونی منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے:
سوشل میڈیا ایکٹوسٹ جناب اکبر حسین فیاضی نے سقوطِ دمشق پر امریکی ارکان پارلیمنٹ کی خوشی کی پوسٹ اپلوڈ کی ہے:
اہل سنت کے منصف مفتی فضل ہمدرد نے طنزیہ مبارکباد پیش کرتے ہوئے اپنے اکاؤنٹ پر لکھا ہے:
باب العلم اکیڈمی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر نام نہاد مجاہدین کے ہاتھوں سقوطِ دمشق کے بعد ان نام نہاد صیہونی آلہ کاروں کو قدس جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول کو بھی فتح کرنے کا مشورہ دیا ہے:
محمد مہدی نامی سوشل ایکٹوسٹ نے سقوطِ دمشق کو امریکی اسلام کی فتح قرار دیتے ہوئے پوسٹ کی ہے:
محمد الیاس نے نیتن یاہو کو تکفیریوں کی ماں قرار دیتے ہوئے اس کے سقوطِ دمشق پر پیغام کو شائع کیا ہے:
جناب صادق الوعد نے صیہونیوں اور تکفیریوں کو باپ بیٹا قرار دیا ہے اور ایک پر معنی پوسٹ کی ہے:
ایک اور سوشل ایکٹوسٹ نے سقوطِ دمشق کا ترکی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے پوسٹ کی ہے:
انصاف پسند سنی صارف نے سقوطِ دمشق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
لیکن سقوطِ دمشق کو فتح کے نام سے کون لوگ مبارکبادی دے رہے ہیں؟ اور ان کی اس حوالے سے کیا رائے ہے؟
مختلف ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ سقوطِ دمشق پر عام طور پر دنیا بھر کے تکفیری اور خاص طور پر پاکستان کی کالعدم اور دہشت گرد تنظیموں سے براہ راست یا بلواسطہ تعلق رکھنے والے نام نہاد تکفیری سوچ کے حامل افراد سرگرم عمل ہیں۔
ایک رپورٹ میں لکھا تھا:
حلب میں پاکستانی تکفیریوں کی شرکت
شام کے شہر حلب میں شامی فوج کے ہاتھوں پاکستان کے ضلع کرم سے تعلق سے رکھنے والے تکفیری دھشتگرد گرفتار ہوئے ہیں۔
گرفتار ہونے والے تکفیری خارجی دہشتگردوں کا تعلق ضلع کرم کے علاقوں منگل، مقبل، بوشہرہ اور ستین سے ہے۔
شام کے شہر حلب میں شامی فورسز کی کاروائی کے دوران تحریر الشام نامی تنظیم (سابقہ القائدہ اور داعش) سے تعلق رکھنے والے 20 سے زائد تکفیری خارجی دہشتگرد گرفتار ہوئے۔
ان دہشتگردوں کا تعلق پاکستان کے ضلع کرم سے بتایا گیا ہے، شامی فوج نے ان گرفتار تکفیری خارجی دہشتگردوں کی ویڈیو شائع کی ہے جس میں ان دہشتگردوں کو دکھایا گیا ہے۔
پاکستان سے شام جا کر لڑنے والے یہ تکفیری خارجی دہشتگرد جنگجو شامی حکومت کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہے تھے جنکو امریکہ و اسرائیل سمیت ترکی و دیگر عرب ممالک کا مالی و عسکری تعاون بھی حاصل ہے۔
پاکستان سے شام جا کر لڑنے والے یہ تکفیری دہشتگرد وہاں شیعہ سنی فسادات برپا کرنے، علاقائی امن کو تباہ کرنے اور استعماری طاقتوں کے ہاتھوں کرائے کے جنگجوؤں کے طور پر استعمال ہو رہے تھے۔
پاکستانی تکفیری اور خارجیوں کا شامی حکومت کے خلاف جنگ میں حصہ لینا، عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔
واضح رہے لبنان اور غاصب اسرائیل کی جنگ پر ٹس سے مس نہ ہونے والی پاکستانی حکومت نے لبنان سے اپنے شام میں محصور شہریوں کی بحفاظت واپسی کے لیے رابطہ بھی کیا ہے۔
اب ایک نظر تکفیریوں کی سقوطِ دمشق پر رائے پر دوڑاتے ہیں:
ایک تکفیری نے شامی دہشت گردوں کو شہزادہ قرار دیتے ہوئے پوسٹ کی ہے:
ایک اور تکفیری سوچ کے حامل اور کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے لکھا ہے: